کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ
by داغ دہلوی

کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ
منظور تو ہے میری ملاقات سے توبہ

زاہد نے چھپایا ہے اسے گوشۂ دل میں
بھاگی تھی کسی رند خرابات سے توبہ

یہ فصل اگر ہوگی تو ہر روز پئیں گے
ہم مے سے کریں توبہ کہ برسات سے توبہ

دنیا کی کوئی بات ہی اچھی نہیں زاہد
اس بات سے توبہ کبھی اس بات سے توبہ

مسجد نہیں دربار ہے یہ پیر مغاں کا
دروازے کے باہر رہے اوقات سے توبہ

یہ داغؔ قدح خوار کے کیا جی میں ہے آئی
سنتے ہیں کئے بیٹھے ہیں وو رات سے توبہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse