کیوں وصل میں بھی آنکھ ملائی نہیں جاتی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں وصل میں بھی آنکھ ملائی نہیں جاتی
by جلالؔ لکھنوی

کیوں وصل میں بھی آنکھ ملائی نہیں جاتی
وہ فرق دلوں کا وہ جدائی نہیں جاتی

کیا دھوم بھی نالوں سے مچائی نہیں جاتی
سوتی ہوئی تقدیر جگائی نہیں جاتی

کچھ شکوہ نہ کرتے نہ بگڑتا وہ شب وصل
اب ہم سے کوئی بات بنائی نہیں جاتی

دیکھو تو ذرا خاک میں ہم ملتے ہیں کیونکر
یہ نیچی نگہ اب بھی اٹھائی نہیں جاتی

کہتی ہے شب ہجر بہت زندہ رہوگے
مانگا کرو تم موت ابھی آئی نہیں جاتی

وہ ہم سے مکدر ہیں تو ہم ان سے مکدر
کہہ دیتے ہیں صاف اپنی صفائی نہیں جاتی

ہم صلح بھی کر لیں تو چلی جاتی ہے ان میں
باہم دل و دلبر کی لڑائی نہیں جاتی

خود دل میں چلے آؤ گے جب قصد کرو گے
یہ راہ بتانے سے بتائی نہیں جاتی

چھپتی ہے جلالؔ آنکھوں میں کب حسرت دیدار
سو پردے اگر ہوں تو چھپائی نہیں جاتی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.