Jump to content

کیوں نہ ہو شوق ترے در پہ جبیں سائی کا

From Wikisource
کیوں نہ ہو شوق ترے در پہ جبیں سائی کا
by عزیز لکھنوی
317992کیوں نہ ہو شوق ترے در پہ جبیں سائی کاعزیز لکھنوی

کیوں نہ ہو شوق ترے در پہ جبیں سائی کا
اس میں جوہر ہے مری آئینہ سیمائی کا

طور کشتہ ہے اسی ناز خود آرائی کا
برق کی لہر ہے نقشہ تری انگڑائی کا

عشق اک تبصرہ ہے حسن کی رعنائی پر
حسن اک فلسفہ ہے عشق کی رسوائی کا

آج اک خاک کا ذرہ بھی نہیں باقی ہے
دل برباد یہ حاصل ہے خود آرائی کا

یاد ایام کہ تھی لب پہ مرے مہر سکوت
اب تو ماتم ہے بپا دل میں شکیبائی کا

موج در موج رواں بادۂ سرجوش شباب
عالم کیف ہے عالم تری انگڑائی کا

حسرت و یاس کا انبوہ مگر میں بیکس
ایسے مجمع میں یہ عالم مری تنہائی کا

تیرگی شام لحد کی ہے بھیانک لیکن
ہے یہ اترا ہوا جامہ شب تنہائی کا

جزر و مد حسن کے دریا میں نظر آتا ہے
قابل دید ہے عالم تری انگڑائی کا

تیرے دیدار سے محروم رہیں جب آنکھیں
کوئی مصرف ہی نہیں پھر مری بینائی کا

عالم گور غریباں کا یہ غم ناک سکوت
اک نمونہ ہے مرے دل کی شکیبائی کا

نیند ان کی اگر اڑ جائے تو کچھ دور نہیں
سو گیا جاگنے والا شب تنہائی کا

شعر دل کش ہو اگر صفحۂ کاغذ پہ عزیزؔ
اک مرقع ہے کمال سخن آرائی کا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.