کیوں نہ ہو بام پہ وہ جلوہ نما تیسرے دن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں نہ ہو بام پہ وہ جلوہ نما تیسرے دن
by نظیر اکبر آبادی

کیوں نہ ہو بام پہ وہ جلوہ نما تیسرے دن
ماہ بھی چھپ کے نکلتا ہے دلا تیسرے دن

ہاتھ سے اب تو قلم رشک مسیحا رکھ دے
نسخے بدلے ہیں جہاں کے حکما تیسرے دن

غرق دریائے محبت کی نہیں ملتی لاش
ورنہ ڈوبا ہوا نکلے ہے سنا تیسرے دن

دل بیمار رہے عشق میں کیوں کر سر سبز
خاک سے دانے کو ہے نشو و نما تیسرے دن

چھوڑ مت زلف کے مارے کو تو دریا میں ہنوز
سانپ کے کاٹے کو دیتے ہیں بہا تیسرے دن

اب ذرا چشم کے بیمار کا کر اپنے علاج
ہوتی معلوم ہے تاثیر دوا تیسرے دن

لوگ کہتے ہیں کہ ہیں پھول ترے کشتے کے
مہندی ہاتوں میں تو قاتل لگا تیسرے دن

عمر اک ہفتہ نہیں باغ میں اے گل مت پھول
رنگ بدلے ہے زمانے کی ہوا تیسرے دن

چار حرف اس بت پر خوں کے اوپر بھیج نظیرؔ
آپ سے آپ جو ہو جائے خفا تیسرے دن

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse