کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قرباں ہو جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قرباں ہو جائے
by فانی بدایونی

کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قرباں ہو جائے
گھر وہ صحرا کہ بہار آئے تو زنداں ہو جائے

برق دم لینے کو ٹھہرے تو رگ جاں ہو جائے
فتنۂ حشر مجسم ہو تو انساں ہو جائے

جوہر آئینہ دل ہے وہ تصویر ہے تو
دل وہ آئینہ کہ تو دیکھ کے حیراں ہو جائے

غم وہ راحت جسے قسمت کے دھنی پاتے ہیں
دم وہ مشکل ہے کہ موت آئے تو آساں ہو جائے

عشق وہ کفر کہ ایمان ہے دل والوں کا
عقل مجبور وہ کافر جو مسلماں ہو جائے

ذرہ وہ راز بیاباں ہے جو افشا نہ ہوا
دشت وحشت ہے وہ ذرہ جو بیاباں ہو جائے

غم محسوس وہ باطل جسے کہتے ہیں مجاز
دل کی ہستی وہ حقیقت ہے جو عریاں ہو جائے

خلد مے خانہ کو کہتے ہیں بقول واعظ
کعبہ بت خانے کو کہتے ہیں جو ویراں ہو جائے

سجدہ کہتے ہیں در یار پہ مر جانے کو
قبلہ وہ سر ہے جو خاک رہ جاناں ہو جائے

موت وہ دن بھی دکھائے مجھے جس دن فانیؔ
زندگی اپنی جفاؤں پہ پشیماں ہو جائے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse