کیوں نہ جہاں میں ہو عیاں عیب و ہنر الگ الگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں نہ جہاں میں ہو عیاں عیب و ہنر الگ الگ
by داغ دہلوی

کیوں نہ جہاں میں ہو عیاں عیب و ہنر الگ الگ
دیکھتے ہیں بہ چشم غور اہل نظر الگ الگ

راہ میں ان کو وہم تھا کوئی نہ بد گمان ہو
آئے تو ساتھ ساتھ وہ مجھ سے مگر الگ الگ

کس کا یقین کیجیے کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ

میں ہوں ادھر تو وہ ادھر میں ہوں یہاں تو وہ وہاں
رہتے ہیں مجھ سے دور دور آٹھ پہر الگ الگ

رنج فراق یار بھی صدمۂ روزگار بھی
ایک دل اور اتنے غم چاہئے گھر الگ الگ

ان کو یہ وہم ہے کہیں ایک سے ایک مل نہ جائیں
لوگ بہت ہیں بزم میں سب ہیں مگر الگ الگ

حشر کو اس نے چن لئے داغؔ گناہ گار عشق
تاڑ گئی ہزار میں اس کی نظر الگ الگ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse