کیوں ناصحا ادھر کو نہ منہ کر کے سوئیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں ناصحا ادھر کو نہ منہ کر کے سوئیے
by نظام رامپوری

کیوں ناصحا ادھر کو نہ منہ کر کے سوئیے
دل تو کہے ہے ساتھ ہی دل بر کے سوئیے

گھبرا کے اس کا کہنا وہ ہائے شب وصال
بس بس ذرا اب آپ تو ہٹ کر کے سوئیے

میں آپ سے خفا ہوں کہ تم روٹھے ہو پڑے
بہتان میرے سر پہ نہ یوں دھر کے سوئیے

سوتے میں بھی جو دیکھیے تو چونک ہی اٹھے
کس طرح ساتھ ایسے ستم گر کے سوئیے

تم لطف نشہ دیکھو ذرا تم کو دیکھیں ہم
کیا لطف ہے کہ لیتے ہی ساغر کے سوئیے

مشہور ہے کہ سولی پہ بھی نیند آتی ہے
یارب شب فراق میں کیوں کر کے سوئیے

تکیہ تو آپ سر کے تلے روز رکھتے ہیں
اب ہاتھ میرے رکھ کے تلے سر کے سوئیے

وہ مسکرا رہے ہو لو وہ آنکھ کھل گئی
یوں کون مانتا ہے کہ جگ کر کے سوئیے

پاس عدو تو دیکھو ہمیں حکم ہے نظامؔ
شب کو کہیں نہ پاس مرے گھر کے سوئیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse