کیوں مشت خاک پر کوئی دل داغ دار ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں مشت خاک پر کوئی دل داغ دار ہو
by شاہ دین ہمایوں

کیوں مشت خاک پر کوئی دل داغ دار ہو
مر کر بھی یہ ہوس کہ ہمارا مزار ہو

بڑھ جائے غم کا سلسلہ کہسار کی طرح
طولانی گر یہ زندگئ مستعار ہو

اس صید گاہ میں وہی نکلے گا بچ کے صاف
جو صید سب سے پہلے اجل کا شکار ہو

اس بوالہوس کی موت کے قربان جائیے
جو پھر دوبارہ جینے کا امیدوار ہو

ہستی کا طوق تو ہے قیامت پس وفات
یارب کہیں یہ میرے گلے کا نہ ہار ہو

یکساں ہے اہل دل کے لیے انبساط و غم
باغ جہاں میں آئے خزاں یا بہار ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse