کیوں شوق بڑھ گیا رمضاں میں سنگار کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں شوق بڑھ گیا رمضاں میں سنگار کا
by احمد حسین مائل

کیوں شوق بڑھ گیا رمضاں میں سنگار کا
روزہ نہ ٹوٹ جائے کسی روزہ دار کا

ان کا وہ شوخیوں سے پھڑکنا پلنگ پر
وہ چھاتیوں پہ لوٹنا پھولوں کے ہار کا

حور آئے خلد سے تو بٹھاؤں کہاں اسے
آراستہ ہو ایک تو کونا مزار کا

شیشوں نے طرز اڑائی رکوع و قیام کی
کیا ان میں ہے لہو کسی پرہیزگار کا

کیوں غش ہوئے کلیم تجلی طور پر
وہ اک چراغ تھا مرے دل کے مزار کا

بعد فنا بھی صاف نہیں دل رقیب سے
گنبد کھڑا ہوا ہے لحد پر غبار کا

کثرت کا رنگ شاہد وحدت کا ہے بناؤ
وہ ایک ہی سے نام ہے ہژدہ ہزار کا

ناقوس بن کے پوچھنے جاؤں اگر مزاج
بت بھی کہیں گے شکر ہے پروردگار کا

دولہا کی یہ برات ہے رسمیں ادا کرو
در پر جنازہ آیا ہے اک جاں نثار کا

کیا کیا تڑپ تڑپ کے سرافیل گر پڑے
دم آ گیا جو صور میں مجھ بے قرار کا

سرمہ کے ساتھ پھیل کے کیا وہ بھی مٹ گیا
کیوں نام تک نہیں تری آنکھوں میں پیار کا

کیا رات سے کسی کی نظر لگ گئی اسے
اچھا نہیں مزاج دل بے قرار کا

آنکھیں مری فقیر ہوئیں شوق دید میں
تسمہ کمر میں ہے نگۂ انتظار کا

لوٹوں مزے جو بازیٔ شطرنج جیت لوں
اس کھیل میں تو وعدہ ہے بوس کنار کا

اللہ مرا غفور محمد مرے شفیع
مائلؔ کو خوف کچھ نہیں روز شمار کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse