کیوں خفا رشک حور ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں خفا رشک حور ہوتا ہے
by دیا شنکر نسیم

کیوں خفا رشک حور ہوتا ہے
آدمی سے قصور ہوتا ہے

مئے الفت سے پھر گیا جو دل
صورت شیشہ چور ہوتا ہے

خاک عاشق سے جو درخت اگا
طور ہوتا ہے نور ہوتا ہے

جس کو دیکھا وہ اس زمانے میں
اپنے نزدیک دور ہوتا ہے

خاکساری وہ ہے کہ ذروں پر
روز باران نور ہوتا ہے

کس کی لیتا نہیں خبر رزاق
آلودگی ناصبور ہوتا ہے

اے ہوس نان داغ بس نہ لگا
گرم طوفاں تنور ہوتا ہے

کشتیٔ مے نہیں تو اے ساقی
بحر غم سے عبور ہوتا ہے

باغ میں جاؤ جاتے ہو جو نسیمؔ
صبح کو وہ ضرور ہوتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse