کیوں خفا تو ہے کیا کہا میں نے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں خفا تو ہے کیا کہا میں نے
by عبدالرحمان احسان دہلوی

کیوں خفا تو ہے کیا کہا میں نے
مر کہا تو نے مرحبا میں نے

کیوں صراحی مے کو دے پٹکا
تو نے توڑا یا بے وفا میں نے

ناتوانی میں یہ توانائی
دل کو تجھ سے اٹھا دیا میں نے

دے کے یہ تجھ کو یہ لیا کہ دیا
گوہر بے بہا لیا میں نے

کیوں خم مے کو محتسب توڑا
کیا کیا میں نے کیا کیا میں نے

کیوں نہ رک رک کے آئے دم میرا
تجھ کو دیکھا رکا رکا میں نے

گل ہزاروں میں شمع عیش احساںؔ
جیسے اس گل کو دل دیا میں نے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse