کیوں بند سب کھلے ہیں کیوں چیر اٹپٹا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں بند سب کھلے ہیں کیوں چیر اٹپٹا ہے
by شاہ مبارک آبرو

کیوں بند سب کھلے ہیں کیوں چیر اٹپٹا ہے
کیا قتل کوں ہمارے اب ٹھاٹھ یوں ٹھٹھا ہے

اس وقت میں پیارے ہم کوں شراب دیجے
دیکھو تو کیا ہوا ہے ریجھو تو کیا گھٹا ہے

برہن کے نین رو رو جوگی برن ہوئے ہیں
کاجر بھبھوت انجھو مالا پلک جٹا ہے

خواہ لاٹھیوں سیں مارو خواہ خاک میں لتھاڑو
عاشق کا دل پیارے چوگان کا بٹا ہے

لب کوں انکھیوں کوں مکھ کوں بر کوں کمر کوں قد کوں
ان سب کو چاہتا ہے ٹکڑے ہو دل بٹا ہے

سامان عیش ہم کوں اسباب غم ہوئے ہیں
خون جگر ہے صہبا بخت سیہ گھٹا ہے

کیا رنگ ہے تمہارے رخسار کا سریجن
جس پر نظر کرے سیں گل کا جگر پھٹا ہے

عاشق کی آبروؔ ہے خواری میں جان دینا
نامرد وہ کہاوے جو عشق سیں ہٹا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.