کیوں اے خیال یار تجھے کیا خبر نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں اے خیال یار تجھے کیا خبر نہیں
by بیخود موہانی

کیوں اے خیال یار تجھے کیا خبر نہیں
میں کیوں بتاؤں درد کدھر ہے کدھر نہیں

نشتر کا کام کیا ہے اب اچھا ہے درد دل
صدقے ترے نہیں نہیں اے چارہ گر نہیں

کہتی ہے اہل ذوق سے بیتابیٔ خیال
جس میں یہ اضطراب کی خو ہو بشر نہیں

ہستی کا قافلہ سر منزل پہنچ گیا
اور ہم کہا کیے ابھی وقت سفر نہیں

دیوان گان عشق پہ کیا جانے کیا بنی
وارفتگیٔ حسن کو اپنی خبر نہیں

دنیائے درد دل ہے تو دنیائے شوق روح
ہوں اور بھی جہاں مجھے کچھ بھی خبر نہیں

صحرائے عشق و ہستئ موہوم و راز حسن
ان منزلوں میں دل سا کوئی راہبر نہیں

ہر ذرہ جس سے اک دل مضطر نہ بن سکے
وہ کوئی اور چیز ہے تیری نظر نہیں

اس بے دلی سے کہنے کا بیخودؔ مآل کیا
الفاظ کچھ ہیں جمع معانی مگر نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse