کیونکہ ہم دنیا میں آئے کچھ سبب کھلتا نہیں
Appearance
کیونکہ ہم دنیا میں آئے کچھ سبب کھلتا نہیں
اک سبب کیا بھید واں کا سب کا سب کھلتا نہیں
پوچھتا ہے حال بھی گر وہ تو مارے شرم کے
غنچۂ تصویر کے مانند لب کھلتا نہیں
شاہد مقصود تک پہنچیں گے کیونکر دیکھیے
بند ہے باب تمنا ہے غضب کھلتا نہیں
بند ہے جس خانۂ زنداں میں دیوانہ تیرا
اس کا دروازہ پری رو روز و شب کھلتا نہیں
دل ہے یہ غنچہ نہیں ہے اس کا عقدہ اے صبا
کھولنے کا جب تلک آوے نہ ڈھب کھلتا نہیں
عشق نے جن کو کیا خاطر گرفتہ ان کا دل
لاکھ ہووے گرچہ سامان طرب کھلتا نہیں
کس طرح معلوم ہووے اس کے دل کا مدعا
مجھ سے باتوں میں ظفرؔ وہ غنچہ لب کھلتا نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |