کیسے دل لگتا حرم میں دور پیمانہ نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیسے دل لگتا حرم میں دور پیمانہ نہ تھا
by مضطر خیرآبادی

کیسے دل لگتا حرم میں دور پیمانہ نہ تھا
اس لیے پھر آئے کعبے سے کہ مے خانہ نہ تھا

تم نے دیکھی ہی نہیں تقدیر کی تاریکیاں
اک اندھیری گور تھی فرقت میں کاشانہ نہ تھا

مجمع بیت الحرم کی دھوم سنتے تھے مگر
جا کے جب دیکھا تو ان میں کوئی فرزانہ نہ تھا

حشر میں اس شوخ کا طرز تغافل دیکھنا
مجھ کو پہچانا نہیں حالانکہ بیگانہ نہ تھا

حشر میں آخر اسے بھی چھوڑتے ہی بن پڑی
خانۂ مدفن بھی گویا اپنا کاشانہ نہ تھا

ایسی کیا بیتی کہ مضطرؔ ان بتوں پر مر مٹا
جان دے دیتا وہ کچھ ایسا تو دیوانہ نہ تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse