کیسی ہے آہ اپنی طبیعت بھری ہوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیسی ہے آہ اپنی طبیعت بھری ہوئی
by جمیلہ خدا بخش

کیسی ہے آہ اپنی طبیعت بھری ہوئی
آنکھوں میں اشک اشک میں حسرت بھری ہوئی

اٹکھیلیاں نہ کر تو نسیم سحر کہ ہے
رگ رگ میں ان گلوں کی نزاکت بھری ہوئی

کیوں بے سبب ہجوم تمنا و یاس سے
ہے اس دل حزیں کی عمارت بھری ہوئی

کس جا کرے گا میت عشاق دفن تو
یاں ہے شہید ناز کی تربت بھری ہوئی

گر جام تو پلائے تو پینا حلال ہے
تجھ میں تو ساقیا ہے ملاحت بھری ہوئی

کیوں کر گدا نہ تیرے غنی ہوں صنم کہ ہے
دست کرم میں تیرے سخاوت بھری ہوئی

افشائے راز عشق نہ ہو خوف ہے یہی
چھپتی نہیں ہے آنکھ محبت بھری ہوئی

تم دیکھ لو جمیلہؔ کہ دل غم ہوا نہ ہو
آنکھوں میں ان کے کیوں ہے ندامت بھری ہوئی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.