کیجئے نہ اسیری میں اگر ضبط نفس کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیجئے نہ اسیری میں اگر ضبط نفس کو
by مرزا محمد رفیع سودا

کیجئے نہ اسیری میں اگر ضبط نفس کو
دے آگ ابھی شعلۂ آواز قفس کو

بہہ جاوے لہو ہو کے دل قافلہ سالار
تعلیم دے نالہ جو مرا بانگ جرس کو

پہنچے ہے نم داغ جگر تا سر مژگاں
شاداب میں رکھتا ہوں سدا آگ سے خس کو

پھرتا ہے ادھر زلف میں شانہ تو ادھر دل
یہ دزد نہ لایا کبھو خاطر میں عسس کو

اے عشق نہ فرہاد بچا تجھ سے نہ پرویز
با خاک برابر تو کیا ناکس و کس کو

لے سکتے نہیں سانس تری کو کے مقید
تا خون جگر بیچ نہ غوطہ دیں نفس کو

ترغیب نہ کر سیر چمن کی ہمیں سوداؔ
ہر چند ہوا خوب ہے واں لیک ہوس کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse