کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر
by شاد لکھنوی

کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر
اللہ اللہ اے برہمن کر

ہوگا برباد مثل کاغذ باد
سر کو کھینچا فلک پہ گر تن کر

خنجر و تیغ کر گلے پہ رواں
پھیر کر آنکھ کج نہ چتون کر

اے تری شان ہو گیا انساں
ایک مشت غبار بن ٹھن کر

پاک دامن ہے مریم ثانی
چشم تر طفل اشک کو جن کر

دل کے ڈسنے میں ہے یہ کالا ناگ
زلف پیچاں سے بل نہ ناگن کر

تو اگر ہڈیوں کا مالا ہے
اسم اعظم کی درد سمرن کر

ہے یہ چھلنی مزار شادؔ غریب
دھوپ آتی ہے لاش پر چھن کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse