کیا یہی ہے جس پہ ہم دیتے ہیں جاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا یہی ہے جس پہ ہم دیتے ہیں جاں
by اسماعیل میرٹھی

کیا یہی ہے جس پہ ہم دیتے ہیں جاں
یا کوئی دنیائے فانی اور ہے

یوں تو ہر انسان گویا ہے مگر
شیوۂ شیوا بیانی اور ہے

چل رہی ہے جس سے جسمانی مشین
کوئی پوشیدہ کمانی اور ہے

دل نے پیدا کی کہاں سے یہ ترنگ
کوئی تحریک نہانی اور ہے

غیر سمجھا ہے کسے اے ہم نشیں
میرے دل میں بد گمانی اور ہے

تم نے کب دیکھا ہے بے رنگی کا رنگ
بے نشانی کی نشانی اور ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse