کیا ہے کہ آج چلتے ہو کترا کے راہ سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا ہے کہ آج چلتے ہو کترا کے راہ سے
by وحشت کلکتوی

کیا ہے کہ آج چلتے ہو کترا کے راہ سے
دیکھو ادھر نگاہ ملا کر نگاہ سے

شرم جفا سے چھپتے ہو تم دادخواہ سے
عذر گنہ تمہارا ہے بدتر گناہ سے

ان کی حیا و شرم نے رکھی ہے دل کی شرم
کیا ہوگا جب نگاہ ملے گی نگاہ سے

انصاف بھی یہی ہے یہی شان حسن بھی
ہاں ہاں نظر چراؤ قتیل نگاہ سے

بیت الصنم سے دور نہیں ہے حرم کی راہ
کیوں راہ پوچھیں زاہد گم کردہ راہ سے

کیوں شکوہ ہم کریں عدم التفات کا
وہ پوچھتے تو ہیں نگہ گاہ گاہ سے

زاہد ہزار حیف کہ پہنچا نہ کوئی فیض
رندوں کے مے کدے کو تری خانقاہ سے

پروانوں کا ہجوم ہے شمع جمال پر
جیتا پھرے گا کون تری جلوہ گاہ سے

شکوہ کروں تمہاری جفا کا تو رو سیاہ
دیکھو نہ تم مجھے نگہ عذر خواہ سے

خوشحالئ رقیب سے وہ شاد شاد ہیں
یعنی ہیں بے خبر مرے حال تباہ سے

گردن جھکی ہوئی ہے اٹھاتے نہیں ہیں سر
ڈر ہے انہیں نگاہ لڑے گی نگاہ سے

نکلا نہ کوئی حیف یہاں قابل شکار
صیاد خالی ہاتھ پھرا صید گاہ سے

ہر چند وحشتؔ اپنی غزل تھی گری ہوئی
محفل سخن کی گونج اٹھی واہ واہ سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse