کیا ہے تو نے تو جان جہاں جہاں تسخیر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا ہے تو نے تو جان جہاں جہاں تسخیر
by مرزا اظفری

کیا ہے تو نے تو جان جہاں جہاں تسخیر
ہوا ہے حسن کا شہرہ ترا تو عالم گیر

نہا کے بال جو سرکائے گورے چہرہ سے
تو جیسے چاند نکل آیا کالی بدری چیر

نہ خوب رو تجھے کہہ سکتے ہیں نہ مہر نہ ماہ
عجب گڑھی ید قدرت نے کچھ تری تصویر

جہاں پڑا ترا سایہ اگا وہاں گل زار
قدم دھرا ہے تو جس جا بنا ہے مشک و عبیر

شکار کر لیا سارا جہاں شکار انداز
ہوا ہے پار نگہ سے تری نگاہ کا تیر

ہوے نہ ذبح نہ فتراک تک یہ جا پہنچے
ادھر ادھر ہیں تڑپتے یہ نیم جاں نخچیر

ہے اظفریؔ وہ سیہ بخت سانپ کاٹا بھی
پڑی ہے زلف کی آ جس کے پاؤں میں زنجیر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse