کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
by اکبر الہ آبادی

کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
موت آتی ہے شب ہجر نہ نیند آتی ہے

وہ بھی چپ بیٹھے ہیں اغیار بھی چپ میں بھی خموش
ایسی صحبت سے طبیعت مری گھبراتی ہے

کیوں نہ ہو اپنی لگاوٹ کی نظر پر نازاں
جانتے ہو کہ دلوں کو یہ لگا لاتی ہے

بزم عشرت کہیں ہوتی ہے تو رو دیتا ہوں
کوئی گزری ہوئی صحبت مجھے یاد آتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse