کیا ہو تسکین جو ہو تیری سکونت دل میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا ہو تسکین جو ہو تیری سکونت دل میں
by صفی اورنگ آبادی

کیا ہو تسکین جو ہو تیری سکونت دل میں
رہے آغوش میں یا پیار کی صورت دل میں

موت چاہوں تو کروں سوز محبت کا علاج
کیا رہے گا نہ رہے گی جو حرارت دل میں

دل نشیں ہے جو مجھے طالب عزت ہونا
چھپ کے بیٹھا ہے کوئی صاحب عزت دل میں

دل کو سب لوگ یہ کہتے ہیں خدا کا گھر ہے
میں سمجھتا ہوں کہ ہے تیری امانت دل میں

سن رہا ہوں وہ عیادت کے لئے آتے ہیں
آج ہے پرسش اعمال کی ہیبت دل میں

توبہ توبہ میں سمجھتا تھا کہ دل ہے بیتاب
خود وہ بیتاب ہے جس کی ہے سکونت دل میں

دل میں رہنے کا تجھے حق تو ہے لیکن اے شوخ
کاش ہوتی ترے چہرے کی متانت دل میں

جانتے ہیں مری بے راہروی کے اسباب
مانتے ہیں مجھے یاران طریقت دل میں

ٹھن گئی تھی ترے اخلاق کی بے جا تعریف
اب نہ آتا تو یہ آئی تھی شرارت دل میں

ہے ابھی تک تو فقط شکوۂ دشمن اے دوست
کہیں پیدا نہ ہو کچھ اور شکایت دل میں

چاہتا ہوں جسے بن جائے اگر وہ ساقی
بڑھتی جائے ہوس کوثر و جنت دل میں

ذوق دیدار بھی کیا چیز ہے اللہ اللہ
میری آنکھوں میں بصارت ہے بصیرت دل میں

کاش من جملۂ آزار محبت نکلے
کار فرما نظر آتی ہے جو قوت دل میں

ہیں ابھی تک تمہیں دنیا کے مزے یاد صفیؔ
عاشقی کرتے ہو رکھ کر یہ ملامت دل میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse