کیا ہوئے عاشق اس شکر لب کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا ہوئے عاشق اس شکر لب کے
by عیش دہلوی

کیا ہوئے عاشق اس شکر لب کے
طعنے سہنے پڑے ہمیں سب کے

بھولنا مت بتوں کی یاری پر
ہیں یہ بدکیش اپنے مطلب کے

قیس و فرہاد چل بسے افسوس
تھے وہ کمبخت اپنے مشرب کے

شیخیاں شیخ جی کی دیں گے دکھا
مل گئے وہ اگر کہیں اب کے

یاد رکھنا کبھی نہ بچئے گا
مل گئے آپ وقت گر شب کے

اس میں خوش ہوویں آپ یا ناخوش
یار تو ہیں سنا اسی ڈھب کے

یار بن عیشؔ مےکشی توبہ
ہے یہ اپنے خلاف مذہب کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse