کیا کیا مزے سے رات کی عہد شباب میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کیا مزے سے رات کی عہد شباب میں
by میر تسکینؔ دہلوی

کیا کیا مزے سے رات کی عہد شباب میں
چھوڑوں نہ عمر رفتہ گر آ جائے خواب میں

اک دل کے واسطے یہ پھنسے وہ عذاب میں
رہتے ہیں اپنی زلف ہی کے پیچ و تاب میں

ہے شوق وصل تجھ سے لپٹتا ہوں بار بار
ورنہ یہ مستیاں تو نہیں تھیں شراب میں

اتنی نہ کیجے جانے کی جلدی شب وصال
دیکھے ہیں میں نے کام بگڑتے شتاب میں

ہو جائے چاک سینہ کہ دل گھٹ کے مر چلا
اے چارہ جو کسی کو پھنسا مت عذاب میں

کر بحر و بر کی ہستئ موہوم پر نظر
تھوڑی سی خاک ڈال دی چشم پر آب میں

تب قتل گہہ میں قتل عدو کو چلے ہیں وہ
میرا لہو ملا کے پیا جب شراب میں

کن محنتوں سے وصل پہ راضی ہوئے ہیں وہ
سو نامہ بر ہوئے جو سوال و جواب میں

اختر شماریوں میں نکلتا ہے دم کہیں
تسکیںؔ تمہیں کو دخل نہیں ہے حساب میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse