کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں
by داغ دہلوی

کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں
ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

کیا جانیں کیا سکھائیں گے ان کو صلاح کار
ہر روز گفتگو ہے نئی میرے باب میں

پیر مغاں کی دل شکنی کا رہا خیال
داخل ہوا ہوں توبہ سے پہلے ثواب میں

رکھنا قدم تصور جاناں سنبھال کر
کائی ہے جا بہ جا مری چشم پر آب میں

اے شیخ جو بتائے مے عشق کو حرام
ایسے کے دو لگائے بھگو کر شراب میں

اے داغؔ کوئی مجھ سا نہ ہوگا گناہ گار
ہے معصیت سے میری جہنم عذاب میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse