کیا کیا بیٹھے بگڑ بگڑ تم پر ہم تم سے بنائے گئے
کیا کیا بیٹھے بگڑ بگڑ تم پر ہم تم سے بنائے گئے
چپکے باتیں اٹھائے گئے سر گاڑے وہ ہیں آئے گئے
اٹھے نقاب جہاں سے یا رب جس سے تکلف بیچ میں ہے
جب نکلے اس راہ سے ہو کر منہ تم ہم سے چھپائے گئے
کب کب تم نے سچ نہیں مانیں جھوٹی باتیں غیروں کی
تم ہم کو یوں ہی جلائے گئے وے تم کو وہ ہیں لگائے گئے
صبح وہ آفت اٹھ بیٹھا تھا تم نے نہ دیکھا صد افسوس
کیا کیا فتنے سر جوڑے پلکوں کے سائے سائے گئے
اللہ رے یہ دیدہ درائی ہوں نہ مکدر کیونکے ہم
آنکھیں ہم سے ملائے گئے پھر خاک میں ہم کو ملائے گئے
آگ میں غم کی ہو کے گدازاں جسم ہوا سب پانی سا
یعنی بن ان شعلہ رخوں کے خوب ہی ہم بھی تائے گئے
ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بھی حد ایک آخر ہوتی ہے
کشتے اس کی تیغ ستم کے گور تئیں کب لائے گئے
خضر جو مل جاتا ہے گاہے آپ کو بھولا خوب نہیں
کھوئے گئے اس راہ کے ورنہ کاہے کو پھر پائے گئے
مرنے سے کیا میرؔ جی صاحب ہم کو ہوش تھے کیا کریے
جی سے ہاتھ اٹھائے گئے پر اس سے دل نہ اٹھائے گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |