کیا کہیں ہم تھے کہ یا دیدۂ تر بیٹھ گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کہیں ہم تھے کہ یا دیدۂ تر بیٹھ گئے
by زین العابدین خاں عارف

کیا کہیں ہم تھے کہ یا دیدۂ تر بیٹھ گئے
قلزم اشک میں جوں لخت جگر بیٹھ گئے

ناتواں ہم یوں تری بزم سے نکلے کیونکر
کسے معلوم ہے ہم آ کے کدھر بیٹھ گئے

آپ کو خون کے آنسو ہی رلانا ہوگا
حال دل کہنے کو ہم اپنا اگر بیٹھ گئے

کس کو اک دم کا بھروسہ ہے کہ مانند حباب
بحر ہستی میں ادھر آئے ادھر بیٹھ گئے

دور سمجھا ہے رقیبوں کو یہاں سے عارفؔ
یار کے پاس جو بے خوف و خطر بیٹھ گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse