کیا کہیں پوچھ مت کہیں ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کہیں پوچھ مت کہیں ہیں ہم
by میر حسن دہلوی

کیا کہیں پوچھ مت کہیں ہیں ہم
تو جہاں ہے غرض وہیں ہیں ہم

کیا کہیں اپنا ہم نشیب و فراز
آسماں گاہ گہ زمیں ہیں ہم

وہم میں اپنے تھے بہت کچھ لیک
خوب دیکھا تو کچھ نہیں ہیں ہم

ہم کو ناکارہ جان مت لے لے
تیرے ہی نام کے نگیں ہیں ہم

میں جو پوچھا کہاں ہو تم تو کہا
تجھ کو کیا کام ہے کہیں ہیں ہم

اپنے عقدے کسی طرح نہ کھلے
کس دل آزار کی جبیں ہیں ہم

ہم نہ تیر شہاب ہیں نہ سموم
نالہ و آہ آتشیں ہیں ہم

بود و نابود میں غرض اپنے
جس طرح سے کہ ہم نشیں ہیں ہم

کیا کہیں پوچھ مت بقول ضیاؔ
ایک دم ہیں سو واپسیں ہیں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse