کیا کہیں دنیا میں ہم انسان یا حیوان تھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کہیں دنیا میں ہم انسان یا حیوان تھے
by نظیر اکبر آبادی

کیا کہیں دنیا میں ہم انسان یا حیوان تھے
خاک تھے کیا تھے غرض اک آن کے مہمان تھے

کر رہے تھے اپنا قبضہ غیر کی املاک پر
غور سے دیکھا تو ہم بھی سخت بے ایمان تھے

اور کی چیزیں دبا رکھنا بڑی سمجھی تھی عقل
چھین لیں جب اس نے جب جانا کہ ہم نادان تھے

ایک دن اک استخواں اوپر پڑا میرا جو پاؤں
کیا کہوں اس دم مجھے غفلت میں کیا کیا دھیان تھے

پاؤں پڑتے ہی غرض اس استخواں نے آہ کی
اور کہا غافل کبھی تو ہم بھی صاحب جان تھے

دست و پا زانو سر و گردن شکم پشت و کمر
دیکھنے کو آنکھیں اور سننے کی خاطر کان تھے

ابرو و بینی جبیں نقش و نگار و خال و خط
لعل و مروارید سے بہتر لب و دندان تھے

رات کو سونے کو کیا کیا نرم و نازک تھے پلنگ
بیٹھنے کو دن کے کیا کیا کوٹھے اور دالان تھے

کھل رہا تھا روبرو جنت کے گلشن کا چمن
نازنین محبوب گویا حور اور غلمان تھے

لگ رہا تھا دل کئی چنچل پری زادوں کے ساتھ
کچھ کسی سے عہد تھے اور کچھ کہیں پیمان تھے

گل بدن اور گلعذاروں کے کنارو بوس سے
کچھ نکالی تھی ہوس کچھ اور بھی ارمان تھے

مچ رہے تھے چہچہے اور اڑ رہے تھے قہقہے
ساقی و ساغر صراحی پھول عطر و پان تھے

ایک ہی چکر دیا ایسا اجل نے آن کر
جو نہ ہم تھے اور نہ وہ سب عیش کے سامان تھے

ایسی بے دردی سے ہم پر پاؤں مت رکھ اے نظیرؔ
او میاں تیری طرح ہم بھی کبھی انسان تھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse