کیا کہیں تجھ سے ہم وفا کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کہیں تجھ سے ہم وفا کیا ہے
by قلق میرٹھی

کیا کہیں تجھ سے ہم وفا کیا ہے
سوچ کچھ دل میں پوچھتا کیا ہے

دل ہے یہ یا کہ آبلہ کیا ہے
کیوں ہے اتنا بھرا ہوا کیا ہے

کیسے کیسے جواں کیے برباد
عشق کیا شے ہے یہ بلا کیا ہے

دل کو دینا تھا دے دیا ظالم
اور ہم نے ترا لیا کیا ہے

گر رقابت تمہیں نہیں مجھ سے
پھر یہ آئینہ دیکھنا کیا ہے

پہلے رکھ لے تو اپنے دل پر ہاتھ
پھر مرے خط کو پڑھ لکھا کیا ہے

اب وہ آنکھیں نہیں ہیں پہلی سی
سچ کہو تم کو ہو گیا کیا ہے

شوق عاشق کشی بھلا ہی سہی
رحم کرنا بھی پر برا کیا ہے

کیا کہیں ہم برا کہ خو ہی نہیں
پر کہو تم ہی یہ جفا کیا ہے

جب کہ گردن پہ خوں رہا اس کی
نام مت لو کہ خوں بہا کیا ہے

میری اور آرزو کو تو پوچھے
سوچتا ہوں کہ مدعا کیا ہے

جانے کیا کیا ہوا ہے رزق خاک
گل و لالہ کو دیکھتا کیا ہے

دل عجب چیز ہے تو تم سے عزیز
رہنے بھی دو معاملہ کیا ہے

آگے آگے ہیں پارہ ہائے جیب
مجھ کو درکار رہنما کیا ہے

کم نگاہی بھی شرط حسن ہے پر
دیکھ تو ہم میں اب رہا کیا ہے

قتل ہوتے رہے ہیں ہم سے پوچھ
لے کے شمشیر سوچتا کیا ہے

پی گئی خوں زمیں ہزاروں کی
مفت پھر شوخئ حنا کیا ہے

دونوں عالم کو کیوں کیا پامال
نقش پا پر یہ نقش پا کیا ہے

اے قلقؔ کیوں قلندری چھوڑی
یہ عبا کیا ہے یہ قبا کیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse