کیا کہوں ہم نشیں یہ میرا بھاگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کہوں ہم نشیں یہ میرا بھاگ
by نوح ناروی

کیا کہوں ہم نشیں یہ میرا بھاگ
ایک جان اور سیکڑوں ہیں کھڑاگ

پھر کبھی مے سے توبہ کر لوں گا
اب تو بوتل کا کھل گیا ہے کاگ

دیدہ و دل کی نبھ نہیں سکتی
اس میں پانی ہے اور اس میں آگ

کر کے وہ ذکر جور ڈھائیں گے
تار بولا کہ ہم نے بوجھا راگ

اب خزاں میں کہاں وہ رنگ چمن
جلد تر لٹ گیا دلہن کا سہاگ

مفلسی میں ہے دل امیروں کا
ہم لنگوٹی میں کھیلتے ہیں پھاگ

دل ہمارا بتوں کو بھول گیا
اب نہ کاشی نظر میں ہے نہ پراگ

چور سے کہہ رہے ہیں چوری کر
اور وہ کہہ رہے ہیں شاہ سے جاگ

شعلہ رو میں نے کیوں کہا ان کو
اور بھی ہو گئے وہ سن کر آگ

بزم عیش و نشاط ہو گئی ختم
اب کہاں راگنی کہاں وہ راگ

کیوں سنبھلتا نہیں مزاج اپنا
ہے دوا و مرض میں شاید لاگ

سب ترے دوست سب مرے دشمن
اک مرا بخت ایک تیرا بھاگ

کوئی لحظے کو بھی نہیں رکتا
توسن عمر کی ہے ڈھیلی باگ

قول دے کر ترا مکر جانا
مجھ سے اتنا لگاؤ اتنی لاگ

ہے جدھر میری منزل مقصود
میں ادھر جا رہا ہوں بھاگا بھاگ

میں نے دیکھا یہ بزم عالم میں
اپنی ڈفلی ہے اور اپنا راگ

موسم گل ابھی نہیں آیا
چل دئے گھر میں ہم لگا کر آگ

روز ملتے ہیں منہ پر اپنے بھبھوت
عشق میں ہم نے لے لیا بیراگ

دل لگا کر مجھے ہوا معلوم
عشق میں ہیں بڑے بڑے سے کھڑاگ

ان کو طوفان خلق سے کیا ڈر
حضرت نوحؔ ہیں پرانے گھاگ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse