کیا کہوں غنچۂ گل نیم دہاں ہے کچھ اور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کہوں غنچۂ گل نیم دہاں ہے کچھ اور
by شاد لکھنوی

کیا کہوں غنچۂ گل نیم دہاں ہے کچھ اور
لا کلامی ہے وہاں بات یہاں ہے کچھ اور

بجھ گئی آتش گل دیکھ تو اے دیدۂ تر
کیا سلگتا ہے جو پہلو میں دھواں ہے کچھ اور

پانی اس میں سے بھریں اس میں گریں یوسف دل
چشمۂ چاہ ذقن اور کنواں ہے کچھ اور

جیتے جی موت کا ڈر بعد فنا خوف عذاب
جز غم و رنج یہاں ہے نہ وہاں ہے کچھ اور

حسن صورت پہ نہ جا دیکھ وہیں معنی کو
ایک ہیں کعبہ و بت خانہ کہاں ہے کچھ اور

تم سمجھتے ہو مری بے ذہنی میں ہے کلام
لب گویا کی قسم ذکر یہاں ہے کچھ اور

بادہ کش وہ ہوں کروں شیشے کے شیشے خالی
پر لگاؤں یہی رٹ نشہ میں ہاں ہے کچھ اور

قسمت شادؔ میں جز غم جو یہاں کچھ بھی نہیں
اے ہوس لے چل ادھر کو کہ جہاں ہے کچھ اور

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse