کیا کہوں حسرت دیدار نے کیا کیا کھینچا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کہوں حسرت دیدار نے کیا کیا کھینچا
by مضطر خیرآبادی

کیا کہوں حسرت دیدار نے کیا کیا کھینچا
کبھی دامن ترا کھینچا کبھی پردا کھینچا

نقش امید مرے شوق نے الٹا کھینچا
مجھ سے کھنچتے ہی گئے وہ انہیں جتنا کھینچا

وہ ترے دل میں ہماری بھی جگہ کر دے گا
جس نے اس آنکھ کے تل میں ترا نقشا کھینچا

خواب اس دل پہ تری آنکھ نے ڈورے ڈالے
خوب کاجل نے تری آنکھ میں ڈورا کھینچا

تان لیں دونوں بھویں ڈال کے نظریں اس نے
تیر چھوڑے تو کمانوں نے بھی چلا کھینچا

ضبط فریاد سے مضطرؔ مری سانسیں الجھیں
رسم فریاد نے اوپر کو کلیجا کھینچا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse