کیا کاروان ہستی گزرا روا روی میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کاروان ہستی گزرا روا روی میں
by نظم طباطبائی

کیا کاروان ہستی گزرا روا روی میں
فردا کو میں نے دیکھا گرد و غبار دی میں

تھے محو لالہ و گل کس کیف بے خودی میں
زخم جگر کے ٹانکے ٹوٹے ہنسی ہنسی میں

یاران بزم عشرت ڈھونڈوں کہاں میں تم کو
تاروں کی چھاؤں میں یا پچھلے کی چاندنی میں

ہر عقدہ میں جہاں کے پوشیدہ ہے کشاکش
ہے موج خندۂ گل پنہاں کلی کلی میں

زخموں میں خود چمک ہے اور اس پہ یہ ستم ہے
رنگ پریدہ سے میں رہتا ہوں چاندنی میں

ہم کس شمار میں تھے پرسش جو ہم سے ہوتی
یہ امتیاز پایا آشوب آگہی میں

حکم قضا ہو جیسا سرزد ہو فعل ویسا
بندہ کا دخل بھی ہے پھر اس کہی بدی میں

رفتار سایہ کو ہے پست و بلند یکساں
ٹھوکر کبھی نہ کھائے راہ فروتنی میں

وجد آ گیا فلک کو غش آ گیا زمیں کو
دو طرح کے اثر تھے اک صوت سرمدی میں

تعبیر اس کی شاید ایک واپسیں نفس ہو
جو خواب دیکھتے تھے ہم ساری زندگی میں

لائی حباب تک کو سیل فنا بہا کر
اک آہ کھینچنے کو اک دم کی زندگی میں

محشر کی آفتوں کا دھڑکا نہیں رہا اب
سو حشر میں نے دیکھے دو دن کی زندگی میں

پہلو میں تو ہو اے دل پھر حسرتیں ہزاروں
کس بات کی کمی ہے تیری سلامتی میں

پرسان حال وہ ہو اور سامنے بلا کر
کیا جانیے زباں سے کیا نکلے بے خودی میں

تو ایک ظل ہستی پھر کیسی خود پرستی
سایہ کی پرورش ہے دامان بے خودی میں

حائل بس اک نفس ہے محشر میں اور ہم میں
پردہ حباب کا ہے فردا میں اور دی میں

آنکھیں دکھا رہی ہے دن سے مجھے شب غم
آثار تیرگی کے ہیں دن کی روشنی میں

تو نے تو اپنے در سے مجھ کو اٹھا دیا ہے
پرچھائیں پھر رہی ہے میری اسی گلی میں

سجدہ کا حکم مجھ کو تو نے تو اب دیا ہے
پہلے ہی لکھ چکا ہوں میں خط بندگی میں

اے نظمؔ چھیڑ کر ہم تجھ کو ہوئے پشیماں
کیا جانتے تھے ظالم رو دے گا دل لگی میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse