کیا وصل کی امید مرے دل کو کبھی ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا وصل کی امید مرے دل کو کبھی ہو
by نوح ناروی

کیا وصل کی امید مرے دل کو کبھی ہو
اس شوخ کی تصویر بھی جب مجھ سے کھنچی ہو

مجھ کو نہ بلاتے ہیں نہ آتے ہیں مرے گھر
افسوس ہے ان سے نہ یہی ہو نہ وہی ہو

اے پیر مغاں مجھ کو ترے سر کی قسم ہے
توبہ تو کہاں توبہ کی نیت بھی جو کی ہو

وہ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ محشر کو ملوں گا
میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ جو کچھ ہو ابھی ہو

اے نوحؔ ہمیں عشق میں پروا نہیں اس کی
آزار ہو یا لطف ہو غم ہو کہ خوشی ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse