کیا نام خدا اپنی بھی رسوائی ہے کمبخت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا نام خدا اپنی بھی رسوائی ہے کمبخت
by نظیر اکبر آبادی

کیا نام خدا اپنی بھی رسوائی ہے کمبخت
رسوائی مجنوں بھی تماشائی ہے کمبخت

لڑنے کو لڑے اس سے پر اب کرتے ہیں افسوس
افسوس عجب اپنی بھی دانائی ہے کمبخت

اک بات بھی مل کر نہ کریں اس سے ہم اے چرخ
کیا تجھ کو یہی بات پسند آئی ہے کمبخت

ہمدم تو یہی کہتے ہیں چل بزم میں اس کی
کیا کہئے اسے اپنی جو خود رائی ہے کمبخت

وہ تو نہیں واقف پہ ہمیں دل میں خجل ہیں
کس منہ سے کہیں ہم نے قسم کھائی ہے کمبخت

یارو ہمیں تکلیف نہ دو سیر چمن کی
آنے دو بلا سے جو بہار آئی ہے کمبخت

رہنے دو ہمیں کنج قفس میں کہ ہمارے
قسمت میں یہی گوشۂ تنہائی ہے کمبخت

اس جام نگوں سے مئے راحت نہ طلب کر
یاں بادہ نہیں بادیہ پیمائی ہے کمبخت

توڑے ہیں بہت شیشۂ دل جس نے نظیرؔ آہ
پھر چرخ وہی گنبد بینائی ہے کمبخت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse