کیا ملے گا کوئی حسیں نہ کہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا ملے گا کوئی حسیں نہ کہیں
by داغ دہلوی

کیا ملے گا کوئی حسیں نہ کہیں
جی بہل جائے گا کہیں نہ کہیں

ہے کدورت بھری ہوئی اس میں
آسماں پر بھی ہو زمیں نہ کہیں

حال پہلو بچا کے لکھا ہے
تاڑ جائے وہ نکتہ چیں نہ کہیں

آپ کی گفتگو کا کیا کہنا
چار باتیں بھی دل نشیں نہ کہیں

غیر دیتا ہے کیوں مجھے ساغر
سانپ ہو زیر آستیں نہ کہیں

تیرے عاشق ہیں کافر و دیں دار
ایک ہو جائے کفر و دیں نہ کہیں

داغؔ پھر تاک جھانک کرتے ہیں
اب گھرے اب پھنسے کہیں نہ کہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse