Jump to content

کیا ملا ہم کو تیری یاری میں

From Wikisource
کیا ملا ہم کو تیری یاری میں
by انشاء اللہ خان انشا
293826کیا ملا ہم کو تیری یاری میںانشاء اللہ خان انشا

کیا ملا ہم کو تیری یاری میں
رہے اب تک امیدواری میں

ہاتھ گہرا لگا کوئے قاتل
زور لذت ہے زخم کاری میں

دل جو بے خود ہوا صبا لائی
کس کی بو نگہت بہاری میں

ٹک ادھر دیکھ تو بھلا اے چشم
فائدہ ایسی اشک باری میں

چٹ لگا دیتے ہیں مرے آنسو
سلک گوہر کے آب داری میں

روٹھ کر اس سے میں جو کل بھاگا
ناگہاں دل کی بے قراری میں

آ لیا اس نے دوڑ کر مجھ کو
تاک کے اوچھل ایک کیاری میں

یوں لگا کہنے بس دوانہ نہ بن
پاؤں رکھ اپنا ہوشیاری میں

کب تلک میں بھلا رہوں شب و روز
تیری ایسی مزاج داری میں

ہے سمایا ہوا جو لڑکا پن
آپ کی وضع پیاری پیاری میں

اپنی بکری کا منہ چڑاتے وقت
کیا خوش آتی ہے یہ تمہاری میں

بندۂ بو تراب ہے انشاؔ
شک نہیں اس کی خاکساری میں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.