کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے
by جلیل مانکپوری

کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے
تم بھی رسوا ہوئے آخر مجھے رسوا کر کے

مجھ پہ تلوار کا احساں نہ ہوا خوب ہوا
مار ڈالا تری آنکھوں نے اشارا کر کے

نگہ شوق کو مانع نہیں پردہ کوئی
آپ جائیں گے کہاں آنکھ سے پردا کر کے

تم نے کی وعدہ خلافی تو کوئی بات نہیں
سبھی معشوق مکر جاتے ہیں وعدا کر کے

ہر مرض کے لیے خالق نے دوا پیدا کی
مجھ کو بیمار کیا تجھ کو مسیحا کر کے

اڑ گیا رنگ جو مہندی کا تو کیا غم ان کو
پھر جما لیں گے ابھی خون تمنا کر کے

شکر اس بندہ نوازی کا ادا کیا ہو جلیلؔ
مرے سرکار نے رکھا مجھے اپنا کر کے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse