کیا مزا ہو جو کسی سے تجھے الفت ہو جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا مزا ہو جو کسی سے تجھے الفت ہو جائے
by مرزا محمد تقی ہوسؔ

کیا مزا ہو جو کسی سے تجھے الفت ہو جائے
جی کڑھے فکر رہے میری سی حالت ہو جائے

تیرا بیمار دم نزع یہ مانگے تھا دعا
دیکھ لوں پھر اسے گر تھوڑی سی مہلت ہو جائے

جائیو مت تو صبا باغ سے زنداں کی طرف
مجھ کو ڈر ہے نہ اسیروں پہ قیامت ہو جائے

اے دل اک دن تو گزر کر طرف اہل قبور
تاکہ دیکھے سے انہوں کے تجھے عبرت ہو جائے

دیکھ تصویر کو مجنوں کی ہوسؔ رشک نہ کر
چاہئے عشق میں تیری بھی یہ صورت ہو جائے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse