کیا لیے جاتے ہو چپکے سے چھپا کر ہاتھ میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا لیے جاتے ہو چپکے سے چھپا کر ہاتھ میں
by منشی بنواری لال شعلہ

کیا لیے جاتے ہو چپکے سے چھپا کر ہاتھ میں
دل نہیں ہے گر تو کیا ہے بندہ پرور ہاتھ میں

تل ہتھیلی کا ہے دانہ اور لکیریں دام ہیں
طائر رنگ حنا آتا ہے اڑ کر ہاتھ میں

جذبۂ دل نے جو گھبرایا پہن کر چل دئے
ہاتھ کا پاؤں میں اور پاؤں کا زیور ہاتھ میں

لے اڑا کیا اضطراب جستجوئے نامہ بر
میں جو اچھلا آ گئے جبریل کے پر ہاتھ میں

ہوں وہ دیوانہ ترا صحرا میں جس کی دھوم تھی
دیکھ کر مجنوں اٹھا لیتا تھا پتھر ہاتھ میں

کل کسی کا خون ہوگا شہر میں مشہور ہے
شعلہؔ مہندی لگ رہی ہے آج گھر گھر ہاتھ میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse