کیا فروغ بزم اس مہ رو کا شب صد رنگ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا فروغ بزم اس مہ رو کا شب صد رنگ تھا
by قاسم علی خان آفریدی

کیا فروغ بزم اس مہ رو کا شب صد رنگ تھا
شمع نہیں شرمندہ اور مہ دیکھ رخ کو دنگ تھا

کیوں نہ رکھوں داغ دل پر جیسے لالہ در چمن
خال غیر فام اس رخسار پر گل رنگ تھا

شرمگیں آنکھوں سے جس جانب کو پڑتی ہے نظر
نازکی شمشیر سے بسمل پہ عرصہ تنگ تھا

قتل میں عاشق کے شب کو کیا تجھے تاخیر ہے
شور غل تھا دھوم تھی اور اژدہام آہنگ تھا

آہ زاری پر کسی کی وہ نہ کرتا تھا خیال
گوش زد آواز اس دم ڈھولک و مردنگ تھا

ہو گیا محو تماشا غیر کی محفل میں کیوں
غیر تیرے دل مرا جیوں شیشہ وقف سنگ تھا

آفریدیؔ عشق کے باعث حیا جاتی رہی
کیا ہوا تیرے تئیں دعویٰ جو نام و ننگ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse