کیا طرز کلام ہو گئی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا طرز کلام ہو گئی ہے
by داغ دہلوی

کیا طرز کلام ہو گئی ہے
ہر بات پیام ہو گئی ہے

کچھ زہر نہ تھی شراب انگور
کیا چیز حرام ہو گئی ہے

آگے تو نہیں نہیں سنی تھی
اب تکیہ کلام ہو گئی ہے

جاتے جاتے پیام بر کو
ہر صبح سے شام ہو گئی ہے

اب دیکھیے مشق پائمالی
تعریف خرام ہو گئی ہے

پہنچے ہیں جب اس کی بزم میں ہم
مجلس ہی تمام ہو گئی ہے

عالم کو ہے دعوی محبت
یہ خاص بھی عام ہو گئی ہے

اس بت کے ہمیں نہیں ہیں بندے
مخلوق غلام ہو گئی ہے

برباد نہ ہوگی تیری الفت
تجویز مقام ہو گئی ہے

جاگیر جنوں کی قیس کے بعد
اب داغؔ کے نام ہو گئی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse