کیا روکے قضا کے وار تعویذ
Appearance
کیا روکے قضا کے وار تعویذ
قلعہ ہے نہ کچھ حصار تعویذ
چوٹی میں ہے مشک بار تعویذ
یا فتنۂ روزگار تعویذ
دونوں نے نہ درد دل مٹایا
گنڈے کا ہے رشتہ دار تعویذ
کیا نام علی میں بھی اثر ہے
چاروں ٹکڑے ہیں چار تعویذ
ڈرتا ہوں نہ صبح ہو شب وصل
ہے مہر وہ زرنگار تعویذ
ہم کو بھی ہو کچھ امید تسکیں
کھوئے جو تپ خیار تعویذ
پتاں کو جڑ ہماری پہنچی
گاڑا تہہ پائے یار تعویذ
حاجت نہیں ان کو نورتن کی
بازو پہ ہیں پانچ چار تعویذ
کھٹکے وہ نہ آئے فاتحے کو
دیکھا جو سر مزار تعویذ
پی جائیں گے گھول کر کسے آپ
ہے نقش نہ خاکسار تعویذ
اے ترک ٹلیں بلائیں سر سے
اک تیغ کا خط ہزار تعویذ
ڈر ہے تمہیں کنکنوں سے لازم
لایا تو ہے سادہ کار تعویذ
اکسیر کا نسخہ اس کو سمجھوں
کھوئے جو ترا غبار تعویذ
مجمع ہے امیرؔ کی لحد پر
میلے کا ہے اشتہار تعویذ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |