کیا روکے قضا کے وار تعویذ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا روکے قضا کے وار تعویذ
by امیر مینائی

کیا روکے قضا کے وار تعویذ
قلعہ ہے نہ کچھ حصار تعویذ

چوٹی میں ہے مشک بار تعویذ
یا فتنۂ روزگار تعویذ

دونوں نے نہ درد دل مٹایا
گنڈے کا ہے رشتہ دار تعویذ

کیا نام علی میں بھی اثر ہے
چاروں ٹکڑے ہیں چار تعویذ

ڈرتا ہوں نہ صبح ہو شب وصل
ہے مہر وہ زرنگار تعویذ

ہم کو بھی ہو کچھ امید تسکیں
کھوئے جو تپ خیار تعویذ

پتاں کو جڑ ہماری پہنچی
گاڑا تہہ پائے یار تعویذ

حاجت نہیں ان کو نورتن کی
بازو پہ ہیں پانچ چار تعویذ

کھٹکے وہ نہ آئے فاتحے کو
دیکھا جو سر مزار تعویذ

پی جائیں گے گھول کر کسے آپ
ہے نقش نہ خاکسار تعویذ

اے ترک ٹلیں بلائیں سر سے
اک تیغ کا خط ہزار تعویذ

ڈر ہے تمہیں کنکنوں سے لازم
لایا تو ہے سادہ کار تعویذ

اکسیر کا نسخہ اس کو سمجھوں
کھوئے جو ترا غبار تعویذ

مجمع ہے امیرؔ کی لحد پر
میلے کا ہے اشتہار تعویذ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse