کیا روز حشر دوں تجھے اے داد گر جواب
کیا روز حشر دوں تجھے اے داد گر جواب
اعمال نامہ کا تو ہے پیشانی پر جواب
رک رک کے ہنس کے یوں ہی تو دے فتنہ گر جواب
دیتا ہے اور لطف مجھے تیرا ہر جواب
کس سے مثال دوں تری زلف دراز کو
عمر طویل خضر ہے اک مختصر جواب
مشکل کے وقت دل ہی سے کچھ مشورہ کریں
کیوں دیں کسی کو غیر سے ہم پوچھ کر جواب
کرتے ہیں سجدہ نقش قدم کو تمام لوگ
ہے خانۂ خدا کا تری رہ گزر جواب
منکر نکیر پوچھتے ہیں ڈانٹ ڈانٹ کر
ہوں منتشر حواس تو کیا دے بشر جواب
خلد و سقر کے بیچ میں ہے کوئی عشق یار
ہے پل صراط کا یہ مری رہ گزر جواب
کیوں سر جھکا رہا ہے ذرا آنکھ تو ملا
دے گی مرے سوال کا تیری نظر جواب
غصہ میں یوں نہ آؤ کہ غصہ حرام ہے
تم بات ہی سے بات کا دو سوچ کر جواب
ذروں کی طرح خاک میں ہیں عاشقوں کے دل
گر تو کرے سوال تو دے رہ گزر جواب
میں نے کیا سلام تو چلمن میں چھپ گئے
در پردہ دے گی اب نگہ پردہ در جواب
ہنگامہ حشر کا صفت گرد رہ گیا
تیرے خرام کا نہ ہوا فتنہ گر جواب
کیا اپنے بھولے پن سے کہیں دم میں آئے ہو
ہر بات کا جو دیتے ہو اب سوچ کر جواب
کیا ہوگا خاک ہو کے سر چرخ جائے گا
یہ زیر پا سوال وہ بالائے سر جواب
لکھا ہے مجھ کو ہو گیا تیرا لہو سفید
میں بھی لکھوں گا خون سے سر پھوڑ کر جواب
بے ہوش کر کے پوچھتے ہو دل کا مدعا
دیتا بھی ہے حضور کہیں بے خبر جواب
غصہ سے کچھ کہوں تو وہ کس طرح چپ رہے
اک بات کا جو شام سے دے تا سحر جواب
چتون سے تاڑ جاتے ہیں مائلؔ کا مدعا
دل میں ادھر سوال ہے لب پر ادھر جواب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |