کیا دن تھے جب چھپ چھپ کر تم پاس ہمارے آتے تھے
Appearance
کیا دن تھے جب چھپ چھپ کر تم پاس ہمارے آتے تھے
کانپتے تھے بدنامی کے ڈر سے آنسو پی پی جاتے تھے
ہائے جوانی کیا موسم تھا اب وہ دن یاد آتے ہیں
روٹھتے تھے ہم ہر دم ان پہ اور وہ آ کے مناتے تھے
ہائے غضب ہے مجھ وحشی کو اس موسم میں قید کیا
سن جب شور فصل بہاراں مرغ قفس گھبراتے تھے
ذکر کیا میں آپ کا کس سے کس کے آگے نام لیا
دشمن تھے وہ لوگ مرے جو آپ کے تئیں بہکاتے تھے
ہائے وہ پہلے چاہ کا عالم کس سے میں اظہار کروں
میں تو حجاب سے آپ خجل تھا وہ مجھ سے شرماتے تھے
اس سے ہوسؔ ملنا مشکل تھا پر وہ ہم سے دور نہ تھے
ان کی ہی تصویر سے ہر دم اپنا جی بہلاتے تھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |