کیا خبر تھی یار کے آتے ہی آفت آئے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا خبر تھی یار کے آتے ہی آفت آئے گی
by جمیلہ خدا بخش
317408کیا خبر تھی یار کے آتے ہی آفت آئے گیجمیلہ خدا بخش

کیا خبر تھی یار کے آتے ہی آفت آئے گی
قامت زیبا میں پوشیدہ قیامت آئے گی

پہلوئے ویراں کو اپنے دیکھ کر کہتا ہوں میں
دل نہ ڈھونڈھوں گا یہاں ان کی ندامت آئے گی

غم نہیں مونس نہ ہو کوئی ترے بیمار کا
وادئ غربت میں اس کے ساتھ ہمت آئے گی

اس تصور میں نہ دیکھا آئینہ اس یار نے
بن کے جان مبتلا مرأت میں حیرت آئے گی

مارتے ہیں بے گنہ وہ روز اک ناشاد کو
رفتہ رفتہ ایک دن اپنی بھی نوبت آئے گی

دشمنوں نے یہ سمجھ کر بزم سے روکا مجھے
دیکھ کر شاید مجھے ان کو مروت آئے گی

میری بیتابی کی حالت سے انہیں آگہ کیا
حیف تجھ میں نامہ بر کب آدمیت آئے گی

گو غریب بے وطن ہوں بعد مردن دیکھنا
آہ و زاری کو مری تربت پہ حسرت آئے گی

ہے دم مردن تصور اے بت زیبا ترا
موت آئے گی تو بن کر تیری صورت آئے گی

اے جمیلہؔ اس دل وحشی کی حالت دیکھ کر
قیس کو فرہاد کو وامق کو عبرت آئے گی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse