Jump to content

کیا خبر تھی کوئی رسوائے جہاں ہو جائے گا

From Wikisource
کیا خبر تھی کوئی رسوائے جہاں ہو جائے گا
by شیر سنگھ ناز دہلوی
319255کیا خبر تھی کوئی رسوائے جہاں ہو جائے گاشیر سنگھ ناز دہلوی

کیا خبر تھی کوئی رسوائے جہاں ہو جائے گا
کچھ نہ کہنا بھی مرا حسن بیاں ہو جائے گا

اپنے دیوانے کا تم جوش جنوں بڑھنے تو دو
آستیں دامن گریباں دھجیاں ہو جائے گا

عاشق جانباز ہیں ہم منہ نہ موڑیں گے کبھی
تم کماں سے تیر چھوڑو امتحاں ہو جائے گا

ٹوٹی پھوٹی قبر بھی کر دو برابر شوق سے
یہ بھی اپنی بے نشانی کا نشاں ہو جائے گا

شادیانے بج رہے ہیں آج جس جا نازؔ کل
دم زدن میں دیکھ لینا کیا سماں ہو جائے گا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.