کیا خبر تھی راز دل اپنا عیاں ہو جائے گا
Appearance
کیا خبر تھی راز دل اپنا عیاں ہو جائے گا
کیا خبر تھی آہ کا شعلہ زباں ہو جائے گا
حشر ہونے دے ستم گر ہم دکھا دیں گے تجھے
پیارا پیارا یہ گریباں انگلیاں ہو جائے گا
رات بھر کی ہیں بہاریں شمع کیا پروانہ کیا
صبح ہوتے ہوتے رخصت کارواں ہو جائے گا
حشر میں انصاف ہوگا بس یہی سنتے رہو
کچھ یہاں ہوتا رہا ہے کچھ وہاں ہو جائے گا
اس کو کہتے ہیں جہاں میں لوگ سچی الفتیں
تیر جب دل سے کھچے گا تو کماں ہو جائے گا
آڑی سیدھی پڑتی ہیں نظریں تمہیں پر آج تو
مجمع تار نظر کیا بدھیاں ہو جائے گا
ہے یہی رنگ سخن تو شاعرؔ شیریں زباں
تو بھی اک دن طوطئ ہندوستاں ہو جائے گا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |